کسی بھی حقیقت یا
امر واقعی کو جانچنے، پرکھنے، کسوٹی پر اتارنے اور اس کی تہہ تک
پہنچنے کیلئے، آلہ اور تھرمامیٹر ناگزیر ہے؛ بغیر اس میزان
و ترازو کے، کسی بھی شئے کی اصل حقیقت معلوم نہیں کی
جاسکتی۔ خواہ کہ وہ حقیقت یا امر واقعی اشیاء
محسوسات میں ہوں یا اشیاء غیر محسوسات میں سے؛
بہرحال یہ راز اور بھید طے شدہ ہے، کہ تعصب سے بالاتر ہوکر، انصاف
پسندی اور اعترافِ حقیقت کے ساتھ، جب کسی شئے کی اصلیت
دریافت کی جائے گی تو وہ اپنی تمام قسموں، شعبوں اور
انواع کے ساتھ جستجو کرنے پر منکشف ہوگی؛ لیکن اس کے برعکس وبرخلاف
اگر اعترافِ حق سے عاری و خالی ہوکر، عدل کا چشمہ آنکھوں سے ہٹاکر،
آزاد خیالی کے ساتھ، حقیقت کی گیرائی و
انتہا، تک پہنچنے کی کوشش کی جائے، تو یہ، ناصرف یہ کہ
دشوار گذار ہے؛ بلکہ امرمحال اور ناممکنات میں سے ہے؛ مثلاً ایک شخص
تجدد پسند اور ترقیات کا دل دادہ و دل فریفتہ ہے، نت نئی چیزوں
کے حصول میں اس کا ضمیر دوڑتا ہے، تو اس کو یہ امید و بیم،
چاہت و خواہش، اس وقت تک اس کے حصول یابی کی اصل راز، اور
انتفاع کی ضمانت نہیں دے سکتی، جب تک کہ اُسے اِس بات کا کامل یقین
و اعتماد نہ ہوکہ اُس کے واضع اور صانع نے کارخانہ اور فیکٹری کے
اندر، اس کی صنعت گری فلاں مقصد اور فلاں غرض سے کی ہے؛ اور
صالح اور موجد کو یہ اعتراض و مقاصد مطلوب ہیں: اس کی مثال یوں
سمجھیں کہ ہماری اس چودہویں صدی کے اندر، سائنس اور جدید
ٹیکنالوجی نے اس قدر اہمیت، شہرت اور مقبولیت حاصل کرلی
ہے، جس کی مثال دنیا کی قدیم تاریخ میں بھی
نہیں ملتی، جدید سائنسی علوم و فنون میں اپنی
توانائی اور قوتِ دانائی صرف کرنے والے، مفکروں، مدبروں اور دانش وروں
نے ایک نیا آلہ ایجاد کیا ہے، جسے بین الاقوامی
معاشرے کے اندر کمپیوٹر، انٹرنیٹ اور موبائل وغیرہ مختلف
الانواع و اقسام آسامیوں سے جانا جاتا ہے؛ اب اگر کوئی شخص یا
فردِ بشر مجموعی طور سے ان کے مادّی وجود و میٹریل اور
افادئہ عام و خاص ہونے کا انکار کربیٹھے، اور ان کے فوائد و اثرات، نتائج
وثمرات سے چشم پوشی کرلے، تو وہ اس گئے گذرے زمانہ میں بھی
لوگوں کی نظروں میں کس قدر غیر منصف، بے شعور اور خطا کار ہے،
کہ اس نے اتنے بڑے ٹیکنیکل سے بے زاری ظاہر کرکے اپنی سطحی
ذہنیت اور کنویں کے مینڈھک ہونے کا ثبوت پیش کیا
ہے۔
کچھ ایسے ہی معاملہ کائنات
عالم میں پناہ گذیں، رہنے بسنے والے حضرت انسان کا ہے، کہ ربِ دوجہاں
نے اس کو پیدا کرکے، جدید ٹیکنیکل و کمپیوٹر سے کہیں
زیادہ ارفع واعلیٰ مقام عطا کیا ہے، بلکہ یوں کہیے
کہ پورے کائنات کے ساتھ انسانیت کو بے نمونہ پیدا کرکے اپنی
صنعت و کاریگری اور حسن تخلیق کا مظہر پیش کیا ہے؛
تو گویا کہ وجودِ انسانیت پوری کی پوری مظہر خالق
کا آئینہ دار ہے، اور اس میں خدا کی خلقت و فطرت کے بے شمار گُر
بدرجہ اتم موجود و مشہود ہیں؛ لہٰذا معلوم ہوا کہ جس طرح اللہ نے
کائنات کے ہر ذرّہ کو پیدا کیا ہے، بعینہ اس کو اسی
طرح با مقصد ومستفاد اور قابل نتائج وثمرات بھی بنایا ہے۔ اب یہ
ذمہ داری انسانوں پر عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے فہم و ادراک، کسب و
حصول، تدبر و تفکر کا سہارا لے کر، اپنی ذات سے من کل الوجوہ استفادہ کریں،
تاکہ ان کی ذات کی تخلیق کا مقصد ان کے روبرو آسکے؛ اور ہر چند
کوشش کے بعد بھی انسان مایوسی و ناکامی کا شکار نہ
ہو۔
جب یہ بات طے ہوگئی کہ اللہ
تعالیٰ نے پوری کائنات کو بغیر نمونہ و آئیڈیل
کے پیدا فرمایا ہے اور کائنات عالم میں سب سے اشرف و اعلیٰ
اور مہتم بالشان مخلوق، انسانی تخلیق و پیدائش کو قرار دیا،
اور اپنی الفت و محبت اور مودّت کا مرکزی نقطہ بھی اسی کی
طرف منسوب کیا، اور اُسے ہر طرح کی شرافت، اعزاز واکرام جو اس کے لیے
موزوں و مناسب تھا عطا فرمایا، اور اس کو ایسا حسن و جمال اور خوب
صورتی کا شاہ کار وماہ تاب بنایا، جس سے دنیا کی مختلف
الانواع و متنوع مخلوق پر فوقیت، برترتیت اور افضلیت کا سکہ جم
گیا۔ چناں چہ زبانِ حق گویا ہے:
’لَقَدْ
حَلَقْنَا الاِنْسَانَ فِی اَحْسَنِ تَقْوِیْمِ“ (سورہ تین: ۴)
ہم نے انسان کو بہت خوبصورت سانچے میں
ڈھالا ہے۔
اور اس (انسان) کی گونا گوں مشغولیات،
فرائض منصبی اور متنوع ذمہ داریوں کی ایسی آب پاشی
کی جس سے انسانی تخلیق کے اندر نکھار و شفافیت پیدا
ہوگئی؛ انسان کو انسانیت سے نکھارنے والا ایک بہت قیمتی
اور نایاب وصف ہے، جس نے اس کو فرشتوں سے بھی آگے بڑھا دیا، جسے
اسلامی سوسائٹی، دینی معاشرے اور انسانی تہذیب
وتمدن، ترقی وعروج میں ”خیر وشر“ سے موسوم کیا جاتا ہے،
جو اصلاً یا تو اس کے مادئہ خمیر میں شامل و شریک ہے، یا
اس کا اس سے چولی دامن کا ساتھ ہے؛ جو اس کو نیکیوں کے کرنے اور
برائیوں، بدکاریوں سے بچنے میں معین و مددگار ہے؛ کیوں
کہ اسبابِ خیر واعمالِ صالحہ کا یہ طرئہ امتیاز رہا ہے، کہ اس
نے ہمیشہ اللہ کی حقیقی ذات سے روشناس کرایا ہے،
اور عوامل شر کا لازمی نتیجہ خدا سے پھیرکر غیر اللہ کی
جانب راہنمائی کرتا ہے۔
جب انسانوں کے اندر ”خیر و شر“
دونوں کے اسباب و عوامل اور محرکات بجا طور پر موجود ہیں۔ اللہ تعالیٰ
نے اپنی محترم و مقدس کتاب کے اندر تذکرہ فرمایا ہے۔ چنانچہ
زبان راست گو یوں ارشاد فرماتی ہے:
وَہَدَیْنٰہُ
النَّجْدَیْنِ ․ (سورہ بلد: ۱۰ )
اور (پھر) ہم نے اس کو دونوں رستے (خیر
وشرکے) بتلادئیے۔
اس قاعدئہ کلیہ سے حاصل شدہ اور
وجود میں آنے والا ثمرہ نکل آیا کہ، کاہلی، سستی، بے فکری
اور لاوبالی پن جو شر سے پیدا ہونے والی علتیں اور امراض
ہیں، جو ہوائے نفس، دل کی چاہت اور نفسانی خواہشات کی طرف
محرک ہیں، لہٰذا ان مذکورہ اسباب ووجوہات کے ہوتے ہوئے، ایسے
حالات وماحول میں، ضرورت تھی کسی ناخدا، کامل ووافر، مکمل ومجسم
اور طاہر ومطہر انسان کی؛ جو پوری انسانیت کی ڈگمگاتی
کشتی کو انسانی زندگی کے تھپیڑوں اور موجوں سے نکال کر
راہ خدا کی جانب گامزن کرتا، اور راہِ مستقیم کی صحیح اور
درست سمت متعین کرتا، اس مقصد اور امید و بیم کے تحت اللہ تعالیٰ
نے انسانیت کی سسکتی اور تڑپتی روح کو، سکون و اطمینان
دینے کے لیے انبیاء کرام کے ایک طویل و مدید
سلسلہ کی ابتدا - ابوالانسان حضرت آدم علی نبینّا علیہ
الصلاة والسلام سے شروع فرمایا، اور نبیوں کا ایک دراز سلسلہ
جاری رکھ کر اس کی انتہاء امام الانبیاء سرکار دوجہاں حضرت محمد
صلی اللہ علیہ وسلم پر فرمائی،
اس بڑی لمبی و طویل مدت کے درمیان انسانی زندگی
کو سنوارنے کے لئے تقریباً کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار
انبیاء کرام اس صفحہ گیتی پر تشریف لائے اور سب کا مشن
بندوں کے مابین اللہ کی ذات کا تعارف، اور اس کے ہر چھوٹے بڑے حکم کو
بجالانا اور اپنی لاچاری وبے بسی کا اعتراف کرنا تھا۔
مفکر اسلام مولانا علی میاں
ندوی علیہ الرحمہ اس موضوع پر اس طرح روشنی ڈالتے ہیں:
”نبوت ایک ایسا آفتاب عالمتاب
تھی، جس کی کرنیں کائنات کے گوشہ گوشہ کو منور کرتی تھیں
اور دلوں کو روشنی و حرارت اور زندگی و قوت بخشتی تھیں،
اس لیے بہت کم وقت میں (لیکن بہت بڑی تعداد اور بہت بڑے
رقبہ میں) خالق و مالک سے اس کے بندوں کا رشتہ استوار ہوتا، اور جس کے ساتھ
اللہ تعالیٰ کی توفیق ہوتی، وہ غفلت اور سستی
اور جہالت و گمراہی کی پستیوں سے نکل کر علم وحکمت، عالی
حوصلگی و بلند ہمتی، وصول و کمال اور قرب و ولایت کی آخری
بلندیوں تک پہنچ جاتا، نبوتوں کا یہ سلسلہ برابر قائم رہا یہاں
تک کہ کچھ وقفہ کے بعد حضور صلی
اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی (تمام انبیاء کرام میں)
آپ کی شخصیت سب سے زیادہ طاقت ور، آپ کی دعوت سب سے زیادہ
جامع اور مکمل، اور آپ کی صحبت اس قدر کیمیا اثر تھی کہ
اس کی وجہ سے شدید سے شدید عداوت بھی محبت و فنائیت
میں، خدا سے دوری ومہجوری اور بعد و وحشت، اس کے قرب و وصال اور
انس والفت میں تبدیل ہوجاتی تھی، آپ کی صحبت میں
لوگوں کو ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے کوئی برقی لہر ان کے
وجود میں دوڑنے لگی، وہ چند لمحوں کے اندر ظن و تخمین سے گذر کر
ایمان و یقین کی بڑی سے بڑی منزل طے کرلیتے
تھے، اس وقت امت میں آپ کا مبارک وجود وصول الی اللہ اور قرب و ولایت
کا سب سے طاقت ور ذریعہ تھا۔“
نبوت و رسالت، پیغمبری و پیمبری،
نبیوں کے انتخاب وچناؤ اور تعیین و تشخیص کا یہ طویل
سلسلہ ابوالانسان پیغمبر اول حضرت آدم سے چل کر امام
الاولین والآخرین محبوب کبریا، تاجدار حل وحرم اور پوری
اسلامی سوسائٹی کے بادشاہ حضرت محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم تک جاری و
ساری رہا، اور آپ ہی کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے اپنے
پورے دین اور مکمل اسلامی سوسائٹی، اور اپنے انعامات کی
تکمیل فرمادی:
”اَلْیَوْم
اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنکُم وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ
وَرَضِیْتُ لَکُم الاِسْلاَمَ دِیْنًا“ (سورہ مائدہ: ۳)
(ترجمہ) آج میں نے تمہارے لیے
دین کو کامل کردیا،اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی
اور تمہارے لیے بہ طور دین کے اسلام کو پسند کرلیا۔
اور آپ کی محبوب و مالوف برگزیدہ
و منتخب، چیدہ وچنیدہ اور مختار و ممتاز شخصیت پر سلسلہ نبوت کو
ختم و پورا فرمایا:
مَاکَانَ
مُحَمَّدٌ اَبَا اَحَدٍ مِن رِّجَالِکُمْ وَلٰکِن رَّسُوْل اللّٰہ
وخَاتَمَ النبیین․ (سورہ احزاب:۴۰)
(ترجمہ) محمد صلی اللہ علیہ
وسلم تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں، البتہ اللہ کے رسول
(اور سب) نبیوں کے ختم پر ہیں۔
مولانا علی میاں ندوی اپنی ایک تحریر میں اس کی تصویر
کشی اس طرح فرماتے ہیں:
”آپ کے بعد اس زمین کا آسمان سے وہ
رشتہ ختم ہوگیا، جو نئی وحی اور نئی رسالت کیلئے
قائم ہوا تھا، ختم نبوت اور وحی ورسالت کے انقطاع اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس دنیا
سے تشریف لے جانے کے بعد اس کی ضرورت تھی کہ اس خلا کو پر کیا
جائے جس کے ذریعہ مخلوق و خالق کے درمیان براہ راست اور مضبوط تعلق
قائم ہوا تھا، ان کے قلوب سے ایمان وحکمت اور روحانی قوت کے چشمے
پھوٹتے تھے، اور دیکھتے دیکھتے وہ ایمان و یقین اور
قرب و ولایت کی آخری اور بلند ترین سطح تک پہنچ جاتے
تھے۔
اس خلا کو پر کرنے اور اس کام میں
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی
نیابت و خلافت کے لیے امت کو دو چیزیں دی گئی،
ایک یہ ابدی کتاب (قرآن مجید) جس کا حرف حرف زندگی
و قوت سے لبریز ہے، جس سے تازگی کبھی زائل نہیں ہوتی
اور جس کے عجائبات کبھی ختم نہیں ہوتے، دوسری چیز نماز جو
قرآن ہی کی طرح زندگی و قوت سے بھرپور ہے، اور اس کو وصول الی
اللہ، تعلق مع اللہ اور تقرب و ولایت کے حصول میں جو کمال درجہ تاثیر
اور اور غایت درجہ اہمیت حاصل ہے وہ پورے نظامِ شریعت میں
کسی اور چیز میں نہیں۔ ان دونوں چیزوں کے ذریعہ
اس امت کے محققین و مجاہدین ہر نسل اور ہر دور میں ایمان
و یقین، علم و معرفت، روحانیت و للہیت اور قرب و ولایت
کے ان درجات تک پہنچ گئے جہاں اہل ذہانت کی دقیقہ رسی اور حکماء
و عقلاء کا تصور و خیال بھی نہیں پہنچ سکتا، ان کی اتنی
بڑی تعداد ہے جو شمار و قطار اور حساب و کتاب سے ماوراء ہے اور ان کو خدا کے
سوا کوئی نہیں جانتا، یہ دونوں چیزیں امت کی
تمام نسلوں کے حق میں ایک ایسا ”آب حیات“ ہیں جس کے
ذریعہ زندگی و حرکت تازگی و نشاط اور سچی وطاقتور روحانیت
ہمیشہ ابر رحمت کی طرح برستی ہے، اور اس نے کسی کو نئی
نبوت اور نئی بعثت سے ہمیشہ کیلئے بے نیاز کردیا،
اس کی بدولت ہر موڑ اور تاریخ کے ہر دور میں ان کا خدا سے وہی
ربط و تعلق قائم رہا اور ان کی قلبی طاقت اور روحانی قوت کی
وہ غذا برابر ملتی رہی اور اس کے ذریعے انھوں نے اپنی
معاصر دنیا کی ہدایت و رہنمائی کا فریضہ پوری
اہلیت و سچائی کے ساتھ انجام دیا۔“
جب آپ کی روح کا جسم سے آسمانی
و زمینی رشتہ پائے دار و قائم نہ رہ سکا، جس سے مٹی کو کیمیا
بنایا جاتا تھا، اور عابد و معبود کے درمیان، ایمان و یقین،
قرب وولایت اور تقرب کا رشتہ اور نزدیکی کا بندھن مضبوط کیا
جاتا تھا، تو صحیح اور یقینی طور پر یہ بات ناگزیر
تھی کہ خالق و مخلوق کے بیچ میں الفت و محبت اور تعلق کی
صحیح اور درست اور خط مستقیم کا راستہ ہوتا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نائب و بدل
بنتا؛ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کا نائب و بدل:
کتاب و سنت (قرآن مجید و احادیث شریفہ) نماز، روزہ، حج اور زکاة
وغیرہ جیسی اہم عبادات، معاملات اور معاشرت عطا فرمائی،
جو زمانہ نبوی صلی اللہ
علیہ وسلم سے لے کر حضرت اسرافیل کے صورِ اوّل
پھونکنے سے پہلے پہلے تک تمام انسانوں کو خدا سے ملانے اور مربوط کرنے کا ذریعہ
و راستہ ہیں۔
اوّل الذکر کتاب و سنت (قرآن مجید
احادیث شریفہ) جو مخلوق کو اپنے خالق سے جوڑنے کے لئے انسان کے ساتھ
منسلک اور ہم رشتہ ہیں، آج مغربی و یورپی دنیا میں
سب سے زیادہ مظلوم و بے بس ہیں۔ بلکہ اس وقت میں عالمی
اور بین الاقوامی سطح پر انسانی دنیا میں خدا اور
بندے کے درمیان، اس مضبوط، ٹھوس اور کڑی بندھن و عقد کو کھول کر،
انسانوں کو اپنے حقیقی مالک و بادشاہ سے دور کیا جارہا ہے؛ اور یہ
پالیسی پوری دنیا کے اندر دو کھسیانی قومیں:
یہود و نصاریٰ۔ فسطائی ذہنیت و قوت کی
علمبردار، اسلام، ایمان، قرآن، حدیث اور محسن انسانیت کی ہمہ
گیر، بین الاقوامی اور انٹرنیشنل دشمن، سب سے زیادہ
غیر منصفانہ مزاج اور رسم و رواج پیش کررہی ہیں، یہ
اس قوم کی عناد و دشمنی ہے؛ بلکہ پوری عالمی برادری
میں، یورپ، امریکہ اور اسرائیل کا غیر ستائشی،
نامہذب اور غیر منصفانہ اقدام و جرأت ہے: کہ وہ جدید ٹیکنیکل
کے اثر و رسوخ، اس کے فوائد، و مضمرات اور اس کی ترقی و عروج کو بڑے
شدومد سے بیان کرتے ہیں؛ لیکن اسلام، قرآن اور محسن انسانیت
جو مرجع خلائق، اور عالم کون و مکاں کے وجود کا سبب ہیں، ان کے فوائد اثرات
پر، کاری ضرب لگاکر ان کے وجود کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔
دراصل یہ نازیبا حرکت بنائے اسلام، اصل دین اور محسن انسانیت
و مسلمانوں کے ساتھ، کوئی نئی بات نہیں ہے؛ بلکہ بہت قدیم
اور پرانی ہے، اس کا اقرار و اعتراف پوری مخلوق کو وجود میں
لانے والی ذات اپنی دائمی، ابدی اور بین الاقوامی،
کتاب قرآن مجید کے اندر ان الفاظ میں کررہی ہے:
لَتَجِدَنَّ
اَشُدَّ النّاس عَدَاوَةً للذِیْنَ آمَنُوا الیَہُوْدَ وَالَّذِیْنَ
ا۔َشْرَکُوا وَلَتَجِدَنَّ اَقْرَبَہُمْ مَوَدَّةً للّذِیْنَ آمَنُوّ
الذِیْنَ قَالُوا اِنَّا نَصٰریٰ․ (سورہ مائدہ:۸۲)
(ترجمہ)تمام آدمیوں سے زیادہ
مسلمانوں سے عداوت رکھنے والے آپ ان یہود اور ان مشرکین کو پاویں
گے، اور ان میں مسلمانوں کے ساتھ دوستی رکھنے کے قریب ان لوگوں
کو پائیے گا، جو اپنے کو نصاریٰ کہتے ہیں۔“
آیت کے اندر مبدأ فیاض نے، جس
قوم، ملت اور مذہب کا تذکرہ مربوط لب ولہجہ میں کیا ہے، وہ قوم و سماج
یہود ونصاریٰ کی ہے، جو ابتداء سے ہی ظالم و غدار
ہے۔ اسرائیلی عرفِ عام میں یہودیت کی
تاریخ کا مطالعہ ہمیں اشارہ دیتا ہے کہ یہودیوں کی
قوم ظالم ہونے کے ساتھ غدار، ضرورت پرست اور خود غرض بھی رہی ہے، یا
یوں کہیے: وفاداری کی ضد غداری اس کی فطرت و
خلقت میں رچی، بسی اور پیوست ہے؛ اس کا اندازہ ہمیں
عروج اسلام کی تاریخ کی ورق گردانی سے ہوتا ہے۔
اسرائیلی عرف عام میں،
جہاں تک یہودیت کے ظلم اور اس کی غداری کے حوالے سے؛ اس کی
تاریخ واد وار کا تعلق ہے تو وہ تاریخ کے درج ذیل گوشے سے بجا
طور پر واضح اور ظاہر ہوجاتا ہے۔
محمد بن قاسم جیسے جاں باز و جاں
نثار، اسلام کے شیدائی و فدائی، سرپرکفن باندھ کر، جان کو ہتھیلی
پر رکھ کر، دنیا سے اصنام و اوہام، مورتی و بت پرستی کو نیست
و نابود کرنے کے لئے نکلے، اور جس جس علاقے، خطہ اور چپے چپے کا انھوں نے دورہ کیا
وہاں وہاں عیسائی برادری کو حاکم اور یہودی قوم کو
محکوم و مامور پایا، اور انھوں نے انھیں نہ صرف یہ کہ عیسائیوں
کے ظلم و ستم، جور و استبداد اور ان کی ذلت و رسوائی سے آزادی
دلائی، بلکہ وہاں کی حکمرانی کی باگ ڈور اور بادشاہت و
شہنشاہت کا تختہ بھی سونپ دیا۔ کیونکہ اس وقت کے مسلمانوں
اور اسلام پسندوں کا منشاء اور ان کی چاہت حکومت سنبھالنا تھی، اور نہ
قوم و سماج کے کمزوروں، طاقت وروں اور بے سہاروں پر دادا گیری کرنی
تھی؛ بلکہ ان کا مقصد انسانی سماج کے اندر مذہبی، دینی،
ایمانی اور اخلاقی وسعت دینا تھا۔ اس لیے جیسے
جیسے اسلام کے یہ شہزادے فتوحات حاصل کرتے ہوئے آگے بڑھتے جاتے، ویسے
ویسے یہودیوں کی محکومیت وماموریت ختم ہورہی
تھی، اور وہ خود پر مظالم ڈھانے والوں پر حکم چلانے والے بن رہے تھے۔
لیکن احسان فراموش یہودی برادری نے بجائے ان کا احسان
ماننے کے انہیں کے خلاف سازشوں اور دسیسہ کاریوں کے تانے بانے
بننے شروع کردئیے؛ دراصل جب یہودیوں نے دیکھا کہ اسلام کے
ماننے والے تو پوری دنیا پر غالب آرہے ہیں، تو انھیں یہ
خدشہ ظاہر ہوا کہ جو قوم آج تک عیسائیوں کو پسپا اور مغلوب کرتی
رہی ہے، وہ کل ان پر بھی دھاوا اور ہلّہ بول سکتی ہے، اس طرح
اسلام اور اسلام کے ماننے والوں کے خلاف، سازش، منصوبہ بندی، ہمہ ہمی،
رسہ کشی اور کشمکش شروع ہوئی، جس کا سلسلہ آج تک جاری وساری
ہے۔ اس درمیان کئی قوموں نے یہودیوں کی بیخ
کنی کی کوششیں بھی کیں، جن میں جرمنی
کا ایک ہٹلر بھی تھا، اس نے تو ایک دو کو نہیں بلکہ
ہزاروں یہودیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ آج یہودی
برادری اس واقعہ کو ظلم سے تعبیر کرتی ہے، تو اُسے سوچنا چاہئے
کہ وہ قدیم زمانہ سے لے کر آج تک مسلمانوں، اسلام پسندوں اور محسن انسانیت
کے ساتھ جو کرتی آرہی ہے کیا یہ اس کا پیدائشی
و فطری حق ہے؟ اگر نہیں ہے! اور یقینا نہیں ہے تو
اس سے چشم پوشی کیوں؟
آخرش، انجام کار اور قصہ مختصر یہ
ہے کہ آج یہودی برادری مسلمانوں سے دشمنی وعداوت، اسلام
اور محسن انسانیت کے خلاف رسہ کشی، کشمکش، ہتک آمیز کلمات، دل
خراش و دل آزار جملے، غیرمناسب تصویریں، ناموزوں کارٹون، قرآن
کے متبادل جیسے شنیع و قبیح خطوط و زاوئیے قائم کررہی
ہے؛ لیکن افسوس صد افسوس! کہ بدقسمتی سے اسلام، بانیٴ
اسلام اور عالمی اور بین الاقوامی برادری کے غم خوار، اور
پوری انسانیت کے محسن و کرم فرما حضرت محمد صلی اللہ علیہ
وسلم کا پیمائشی تھرمامیٹر، یہودیت، نصرانیت،
عیسائیت اور صہیونیت کے طاقتور ہاتھوں سے گرکر ٹوٹ گیا؛
اور یہ اقوام و مذاہب، اسلام، قرآن، مسلمان اور محسن انسانیت کے بارے
میں شکوک و شبہات کا شکار ہوکر رہ گئی۔
$ $ $
______________________________
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ9، جلد:
90 ،شعبان1427 ہجری مطابق ستمبر2006ء